تقدیر آزمانے کی زہمت نہ کیجیے
اس بے وفا کو پانے کی حسرت نہ کیجیے
بیٹھا ہےچوٹ کھا کھاحسینوں سےدلپہ وہ
جو کہ رہا تھا ہم سے محبت نہ کیجیے
جلوے کی حسین کے آیا ہوں دیکھ کر
محفل میں آج ذکر َ قیامت نہ کیجیے
آواز تو اٹھا ءیے حق کے لیے مگر
اس کے لئے وطن میں بغاوت نہ کیجیے
میں ہوں سخن طراز قلم بیچتا نہیں
دولت کی مجھ پہ آپ عنایت نہ کیجیے
مفلس کے گھر ہی لٹتے ہیں اکثر فساد میں
اخبار پڑھ کے آج کا حیرت نہ کیجیے
رسمَ وفا نبھاءیے تصدیق آپ بھی
کھا کر فریب َحسن شکایت نہ کیجیے