تماشا
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
کہ اے باد صبا، جھونکا نہیں ہے
ہماری زندگی سے کچھ نہ لینا
ہماری موت پر کیا اس نے دینا
اسے کچھ بھی ہو پر دُکھتا نہیں ہے
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
نہیں یہ فرد کا محتاج ہوتا
جگے کوئی، رہے یا گھر میں سوتا
کبھی بیٹھے نہ یہ، اُٹھتا نہیں ہے
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
تمہیں کو سر نگوں کرنا پڑے گا
کہے تاوان جو بھرنا پڑے گا
تماشا تو کبھی ہو جھُکتا نہیں ہے
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
چلو ہم سب ہیں چلتے ساتھ اسکے
تو آؤ تھام لو پھر ہاتھ اسکے
بُرا کچھ بھی کہو سودا نہیں ہے
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے
نہیں اظہر سے کوئی اس کی یاری
کھلائے اُس کو بھی جب آئے باری
تری خاطر بھی یہ برپا نہیں ہے
تماشا کچھ بھی ہو، رُکتا نہیں ہے