تمام عمر مجھےایک اضطراب رہا
تری وفا مری امید کا سراب رہا
تمہارے نام جو کر دی تھی زندگی اپنی
یہ ایک جرم مری روح کا عذاب رہا
گزرتے وقت نے کملا دیا یہ حسن ترا
نہ تو رہا نہ ترا ایسا وہ شباب رہا
ترے بغیر سلگتی سیاہ راتوں میں
تراخیال مرےرتجگوں کا خواب رہا
یہ کیسے موڑ پہ لے آئی زندگی اپنی
بنا وہ راہ کا پتھر جو کل گلاب رہا
اٹھا رہا ہے جو پردہ مرے گناہوں سے
وہ پارسا بھی کبھی اپنا ہم رکاب رہا
شکایتِ غمِ دوراں تو اک بہانہ تھا
مرا چلن ہی بہت ابتر و خراب رہا