مِرے یہ لفظ بے قیمت
جنھیں بے دام بھی کوئی نہیں لیتا
مِرے جذبوں کے ہیں پیکر
سراہنا کیا
کوئی ان پر توجہ بھی نہیں دیتا
مِرے سینے میں جلتے ہیں
دہک اُٹھتے ہیں تو غزلوں میں اور نظموں میں ڈھلتے ہیں
یہ ہے بازار، جس کے ضابطے سفاک ہوتے ہیں
سو میرے شعر گوداموں میں رکھے خاک ہوتے ہیں
مگر کل شب ہوا نے مجھ کو دھیرے سے بتایا ہے
دریچے میں ٹھہر کر چاند نے مژدہ سُنایا ہے
پَروں پر تتلیوں کے لکھا یہ سندیسہ آیا ہے
وہ میرے لفظ، میرے شعر پڑھ کر مسکرائی ہے
دمک اُٹھا ہے چہرہ اور حیا کی سُرخی آئی ہے
سو اب یہ لفظ میرے سونے اور ہیرے سے بڑھ کر ہیں
اب ان کے نرخ ساتوں آسمانوں سے بھی اوپر ہیں