حسن کو حسن کا شاہکار دکھانے کیلئے
چلے ہو چاند کی کرنوں کو ستانے کیئے
ہاتھ میں آئے تو لفظوں کے سوا کچھ نہ ملا
بہت بیتاب تھا میں خواب چرانے کیلئے
اس میں کیا زخم کی تفصیل کو بیاں کرنا
تمہارا نام ہی کافی ہے فسانے کیلئے
میں کیسے مان لوں اسکو فشار خوں کا سبب
کہ میرا دل ہے فقط اشک چھپانے کیلئے
رات کی خوش گمانیوں سے گزرتا ہے خیال
ستارے اترے تیرا روپ سجانے کیلئے
میرے احساس کی سرگوشیاں ہی کافی ہیں
تیری آنکھوں میں نئے دیپ جلانے کیلئے