تمہاری جستجو ہوتی رہے گی
ہمیں یہ آرزو ہوتی رہے گی
جوانی ہر قدم پر دشمنوں میں
بڑی بے آبرو ہوتی رہے گی
نہ چھوڑا شہر تو اس بے وفا کی
نظر تو روبرو ہوتی رہے گی
کسی کو مستقل اپنا بنا لے
بڑی بدنام تُو ہوتی رہے گی
زمانے بھر میں اپنی دوستی کی
ہمیشہ گفت گو ہوتی رہے گی
اسی بارود سے ہم کو یقیں ہے
یہ دھرتی بے نمو ہوتی رہے گی
ہمیں جو ملی ہے کٹی زندگانی
کیا وشمہ رفو ہوتی رہے گی