تمہیں حد سے دیکھا بے حد ہوگئے
اس نظارے کے اور بس لاحد ہوگئے
دلکشی کا کوئی محاورہ مدت سے مرگیا
تناؤ سے جو اٹھے تھے آواز بند ہوگئے
کس نے کہا پھر اس دنیا میں نہ جائیں
تیرےَ سرا نے بیکار سمجھا وہ بد ہوگئے
اتفاق کی مٹی سے ہی خلقت ہماری
کوئی جانتا بھی نہیں اتنے اشد ہوگئے
ایک گھوٹ کی امید نے کتنا منتظر کیا
چھلکی پھر جو آنکھ تو سبھی مدَ ہوگئے
ہاتھ کی لکیر کو تو اس پار کا پتہ نہیں
لگتا ہے غم بیچ کی کوئی سرحد ہوگئے