تم اور میں
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, Romaniaسنو!
باتیں پرانی کچھ یادیں ہے
جو تیرے اور میرے درمیان ہے
تم تھے اور میں تھی
میں چھپ چھپ کے دیکھا کرتی تھی
یہ میں تھی
تم اپنی دھن گم لکھتے رہتے تھے
وہ تم تھے
میں تمارے اکثر قلم اور پیپر چھپا لیا کرتی تھی
نہ جانے کس کے لئے تم لکھتے تھے
وہ اب بھی چیزے میرے پاس ہے
یہ میں تھی
تم غصے میں رہتے تھے مجھے پھر بھی اچھے لگتے تھے
میں تمیں فون کر کے جگایا کرتی تھی
تماری آواز سنے کی طلب میں یوں ستایا کرتی تھی
تم کبھی غصے میں ہوتے کبھی حیرانی سے بولتے
وہ تم تھے
میری خاموشی چوڑیوں کی کھنک
میری ڈرہی ہوئی سانسے چھپی چاھت سے بھری مسکراھٹیں
یہ میں تھی
اگرچہ میں نادان تھی کم سن تھی مگر
محبت کو سمجھتی تھی
تماری نظرے ارادے تماری خواہش
کوئی اور تھی
وہ تم تھے
چند برس بیت گئے یوں
اب وہ نادانیاں نہیں رہی
مگر اچانک تم کیسے بدل گئے
میرا سراپا جسم تمیں کیسے بھا گیا
میری اک تصویر پر تم کیسے مر مٹے
کہ میرے لئے تم جینا بھول گئے جاناں
یہ تم تھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






