تم خفا کیوں ہو
Poet: Farrukh Izhar By: Farrukh Izhar, Karachiمیری جاں تم خفا كیوں ہو؟
تمہیں مجھ سے گلہ كیا ہے
اچانک بے رخی اتنی
بتاؤ تو ہوا كیا ہے
كسی نے تم سے كیا آخر
كہا ہے میرے بارے میں
كسی سے تم نے كیا آخر
سنا ہے میرے بارے میں
رہو بے شک خفا مجھ سے
مگر یہ بات سمجھا دو
مناؤں كب تک تم كو
مجھے اتنا تو بتلا دو
اگر اب ہوس كے تم سے
تو یہ احسان فرما دو
میری منزل محبت ہے
مجھے منزل پہ پہنچا دو
تمہاری آنكھ میں آنسو
مجھے اچھے نہیں لگتے
تمہارے نرم ہونٹوں پر
گلے اچھے نہیں لگتے
تمہارے مسكرانے سے
میرا دل مسكراتا ہے
تمہارے روٹھ جانے سے
میرا دل ٹوٹ جاتا ہے
میں اكثر سوچتا ہوں یہ
تم ہی كیوں دل میں بستی ہو
كوئی تو بات ہے تم میں
جو اتنی اچھی لگتی ہو
وفا كے رنگ میں، دیكھو
جفا اچھی نہیں ہوتی
كسی سے عشق میں اتنی
انا اچھی نہیں ہوتی
تمہیں جو بے سبب مجھ سے
خفا ہونے كی عادت ہے
یہ آغاز جدائی ہے
كہ انداز محبت ہے
نہیں ہے جب گلہ كوئی
تو اتنی برہمی پھر كیوں
اندھیرا ہی مقدر ہو
تو بكھرے روشنی پھر كیوں
چلو اب مان بھی جاؤ
بہت اب ہوچكی رنجش
كسی دن اور كرلینا
یہ پوری اپنی تم خواہش
فقط كہنے كی باتیں ہیں
نبھاتا كون ہے كس كو
چلو اب دیكھ لیتے ہیں
مناتا كون ہے كس كو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







