پیارے پیارے، بھولے بھالے
جن میں سچ کے بھرے اُجالے
جیسے دو سپنوں کے پیالے
جگمگ جگمگ نینوں میں مسکان سجاکے
تم کہتی ہو
شہد بھرے یہ ہونٹ تمھارے
نرم، اچھوتی رنگت والے
پھولوں سی نرماہٹ والے
شعلوں سی گرماہٹ والے
مشکل سے جنبش پاتے ہیں
تَھرتھرّاتے ہیں
تم کہتی ہو
شاخِ گُل سا بدن ذرا سا لہراتا ہے
تن کا ریشم دھیرے دھیرے بَل کھاتا ہے
انگلیاں نازک نازک بالوں تک جاتی ہیں
گھٹاؤں میں زُلفوں کی کہیں یہ کھوجاتی ہیں
زلف کا سایہ پیشانی پر لہراتا ہے
تم کہتی ہو
سونے سی رنگت پر سُرخی چھاجاتی ہے
جیسے دھوپ میں شاخ گلوں کی لہراتی ہے
حیا کچھ اور بھی رخساروں کو دمکاتی ہے
اور حسیں ہوجاتا ہے معصوم سا چہرہ
یہ کہنے میں کتنی شرم تمھیں آتی ہے
تم کہتی ہو
”میں تم کو کیسی لگتی ہوں“
اور میں سوچ میں پڑجاتا ہوں
تم کو یہ کیسے سمجھاؤں
کہ میں تمھاری سندرتا میں کھویا ہوا ہوں
ڈوب چکا میں جھیل سی ان آنکھوں میں تمھاری
کیسے بولوں
پلکوں کے یہ گہرے گہرے سائے تمھارے
ان کے تلے میں سویا ہوا ہوں