تنہائی میں اِک غزل لکھی
میں نے لکھی وہ ترے ہونٹوں پر
نہ کاغذ لیا نہ قلم ملی
میں نے بول دیا ترے ہونٹوں پر
تری آنکھیں تھی کچھ جُھکی جُھکی
تری دھڑکن تھوڑی تیز چلی
اِک بار جو میں چُھپ کے سے
میں نے چُوم لیا ترے ہونٹوں پر
تُو شرم سے مجھ سے دُور ہوئی
کچھ کہنے پے مجبور ہوئی
آج ناجانے پھر سے کیوں
وہ بات رُکی ترے ہونٹوں پر
بول تُو کچھ، خاموش ہے کیوں
میںنے پوچھا اُس سے جب یارو
سِمٹ کے سینے سے لگ گئی
کویہ بات نہ کُھلی ترے ہونٹوں پر
پاگل تھا میں نادان بھی تھا
نظروں کی زبان سے نہ واقف نہال
میں پڑھ نہ سکا نہ جان سکا
جو رازِ محبت ترے ہونٹوں پر