تو بتا اے دلِ بیتاب کہاں آتے ہیں
ہم کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یکمشت اسے سونپ دوں سب کچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
مدتوں بعد تجھے دیکھ کے دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بیدار نگاہوں میں اگر بھولے سے
نیند آئے بھی تو اب خواب کہاں آتے ہیں
شدتِ درد ہے یا کثرتِ مے نوشی ہے
ہوش میں اب تیرے بے تاب کہاں آتے ہیں
ہم کسی طرح تیرے در پہ ٹھکانہ کر لیں
ہم فقیروں کو یہ آداب کہاں آتے ہیں
سر بسر جن میں فقط تیری جھلک ملتی تھی
اب میسر ہمیں وہ خواب کہاں آتے ہیں