تو نے سمجھا تھا بچھڑ کے تجھ سے مر جاؤں گا میں
تو نہیں جو سنگ میرے تو کدھر جاؤں گا میں
تو مجھے گر چھوڑ دے گی تو بکھر جاؤں گا میں
تو جو دریا میں کہے گی تو اتر جاؤں گا میں
میرے دل کو توڑ دالا ہے ارے او بے وفا
اب نہیں میں مانگتا در سے کسی کے بھی شفا
اب جو کہتے ہو یہ لوگوں سے کہ میں ہوں بے وفا
خود بتا کہ بے وفائی کی ملے کس کو سزا
تو نہیں گر جانتی کس کو پتا ہے یہ بتا
فیصلا تیرا جو ہو گا ہو گی میری وہ رضا
جس کو بھی چاہا ہے میں نے وہ ہی نکلا بے وفا
گر یہی انجام الفت ہے تو پھر کیسی سزا
ناخدا تھا عشق کا تو پھر گیا کیوں چھوڑ کے
سارے وعدے سارے ناطے سارے رشتے توڑ کے
دل مرا کیوں توڑ ڈالا اپنے ہاتھوں جوڑ کے
ہاں بہت پچھتایا ہو گا مجھ سے منہ وہ موڑ کے
کچھ ہوس دل میں نہ تھی سا ئل کے تیرے واسطے
پر تجھے بہتر لگے تھے غیر کے ہی راست