تو وہ گوہر ہے جو کیچڑ میں پڑا سوتا ہے
جس کی قیمت نہیں دے سکتی ہے دنیا جاناں
تجھ سے قطروں کے لیے برسوں ترستی ہے صدف
پھر چمکتا ہے کہیں اس کا نصیبہ جاناں
کور نظروں کو حقیقت تری معلوم نہیں
سنگ ریزوں میں انھوں نے تجھے سمجھا جاناں
ایسے احساسِ شرافت سے خدا معاف رکھے
جس سے ہوتا ہو کوئی آدمی رسوا جاناں
جلد مل جائے گا حق یوسفِ کنعاں تجھ کو
پھر کریں گے وہ ترے قدموں پہ سجدہ جاناں
مجھ کو تیری ہی طلب ہے ، اے الہ دیں کا چراغ
نذر ہے اس کے لیے جان کا ہدیہ جاناں
اپنے شعروں سے بناؤں گا ترا تاج محل
اشک فرقت سے بہاؤں گا میں جمنا جاناں
بارِ غم، بارِ حیات اور ترا بارِ فراق
پھٹ نہ جائے یہ کہیں دل کا جوالہ جاناں
صبح سے شام تلک، شام سے پھر صبح تلک
بہتا رہتا ہے تری یاد کا دریا جاناں
مجھ میں فولاد کی سختی ہے، سمندر کا خروش
اتنا آسان نہیں میرا مکرنا جاناں
تیرے جلووں کی فراوانی سے عالم یہ ہے
ہر طرف مجھ کو نظر آتا ہے کعبہ جاناں