تھا میں عام سا ذرا اِس زمین کی خاک کا
تُو نے سینے سے لگا کے سونا بنا دیا
کیسے اُتاروں گا قرض ترے احسانوں کے
بے جان بُت کو جینا سکھا دی
میں کھویا مسافر جو جگنو کی لو میں رستہ تلاش کرتا تھا
تُو نے بنا کے مہتاب مجھے فلک سے بیٹھا دی
اور بھی آئے کہی جو دعوے کرتے تھے محبت کے
مگر تری محبت نے مان مرا بڑا دی
دوپہر کی دھوپ میں جلا ہوں میں ہو کے بے بس
کرکے سایہ زلفوں کا تُو نے مجھے سُلا دی
برساتوں نے جلایا ہے مجھے اور پھولوں نے زخم دیئے
اب لگتے ہیں کانٹے بھی گُل جادو کیسا چلا دی
مری ساری زندگی کی عبادتوں کا خدا نے
اب جا کے تری صورت مجھے سلہ دی
ہے تری وفائوں کا اثر ورنہ مجھ میں وہ بات کہاں
لفظوں کو سجانے کا ہنر نہال کو سکھا دی