تھا ویراں مدت سے، بہلانے چلے آئے
تیرے دل سے دل ہم لگانے چلے آئے
شاید ہو جائے کچھ آفاقہ جام سے
بس یہی سوچ کر میخانے چلے آئے
دیکھا جو اتنا اضطرب مجھ میں
میری طرف لپکے پیمانے چلے آئے
زخموں پہ مرحم جو رکھا ہم نے
وہ مسکرائے اور درد بڑھانے چلے آئے
رولاتے رہے ذندگی بھر جو مجھ کو
میری میت پہ آنسو بہانے چلے آئے
کھو چکے جب سننے کی شکتی ہم
تو آواز مجھ کو وہ سنانے چلے آئے
غیر ہی سمجھتے رہے عمر بھر جو
روح ہوئی پرواز تو اپنانے چلے آئے
زندگی بھر رہے روٹھے ہم سے عمراؔن
آٹھ گئے جب جہاں سے تو منانے چلے آئے