تیرا ساتھ ھوتا
Poet: ا ے ایس عارف By: ا ے ایس عارف, Mississaugaتیرا ساتھ ھوتا تو وادیوں میں گھوم آتے
خوشیوں کے پنکھ لگا کر ھواؤں میں جھوم آتے
درختوں میں چھپی پگڈنڈی پر چلتے چلتے
ھاتھوں میں ھاتھ ڈالے منا کے دھوم آتے
تیرا ساتھ ھوتا تو جیون کی بارگاہ سے
آئیں بائیں شائیں کرتے کیا یونہی محروم آتے
آمادگی کا مجھ کو اشارہ جو ایک دیتے
سج دھج کے بن سنور کے لے کر ھجوم آتے
تیری سلطنت ھوتی میرا مکان ھوتا
حکم کے روبرو ھم بن کے محکوم آتے
تیرا ساتھ ھوتا تو گردش میں پیر ھوتا
کیا زھن گھماتے رھتے ھم دنیا گھوم آتے
پھولوں سے آراستہ اک گزرگاہ سی ھوتی
وہ چومتے جو کلی کو تو ھم بھی چوم آتے
میر ے ھاتھوں کی لکیریں گڑ بڑا گئ ھوتیں
سر پر ھمار ے گھومنے قسمت کے نجوم آتے
جعلی فقیر بن کر کچھ کرامات کر دیکھاتے
مستقبل کا حال جانتے گھر کے علوم آتے
تیرا ساتھ ھوتا تو زور بازو پہ مان ھوتا
رقیب رو سیاہ سے ڈر کر ایسے نہ مظلوم آتے
تیرا ساتھ ھوتا ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






