تیری جفاپرستی رنگ سے بھی آگے
میری جان نثاری ڈھنگ سے بھی آگے
حدوں کے بھنور نے کتنی رکھی ہیں
خیالوں کی اُڑانیں پنکھ سے بھی آگے
میں اب چھونے کے قابل ہی نہیں
کوہ گراں چٹانیں دنگ سے بھی آگے
شاید مدعا میں کوئی نفاق ہوگیا
نکل گئے قافلے سنگ سے بھی آگے
کسی جان میں بھی جان کہاں رہی گی
تیری تو ہر نگاہ ترنگ سے بھی آگے
اُس انداز ستم کا جمال جو دیکھا
میں تو رہہ گیا دنگ سے بھی آگے