تیری ہی بندگی سے ہوا گنہگار ہے کوئی
تخلیق حسن پے ہوا جا نثار ہے کوئی
اوروں کو بت جان کر کہنا تو عادت ہے
اپنی ہی بات سے ہوا شرمسار ہے کوئی
مقابل میدان عشق میں ہوا جو بھی ہے
کوئی اشکبار تو ہوا علمدار ہے کوئی
خلعت ہے تیری عام ہر ایک جان پر
تیرے بے ذوق بندوں سے ہوا شکر گزار ہے کوئی
آزاد جام کا کہاں ہے ادا ادا کا کمال ہے
کوئی صدیق تو ہوا حیدرقرار ہے کوئی