دل سے جو صدا نکلی تیرے لیے
رب سے جو دعا کی تیرے لیے
تیری محبت میں دیوانے یوں ہوئے
کہ بھٹکے کہاں کہاں نہ جانے تیرے لیے
چھوڑ دیا پھولوں کا بستر ہم نے
اور چلے کانٹوں پر ننگے پاؤں ہم تیرے لیے
اب تو بنا لیے ہیں دوست بھی دشمن ہم نے
اور کی دشمنوں سے چاہتیں تیرے لیے
نام شرابی کے ہم تھے بدنام زمانے میں
جو نشہ تیری آنکھوں میں ہے وہ شراب میں کہاں
اسی لیے تو چھوڑ دی شراب ہم نے تیرے لیے
ہم سا محبت کرنے والا نہ کہیں پاؤ گی تم
گئے روٹھ جو ہم تو رو رو کرو گی فریاد میرے لیے