جانے کس حال میں رہتے ہو
Poet: Nisar Zulfi By: Nisar Zulfi, Lahoreاک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
اک مدت پہلے کی سب باتیں
یاد ہیں ابھی تک اسی طرح
ان یادوں سے عکس بن رہا ہوں
کہ ماضی سے حال تراش رہا ہوں
اک مدت پہلے کی بات ہے یہ
وہ نظریں جھکا کے سوچتے رہنا
پھر سوچتے سوچتے مسکرا دینا
معصوم شرارتیں جب انگڑائی لیتیں
تو بات بات پہ قہقہے لگانا
کبھی بے وجہ ہی ہنستے جانا
اور
بے وجہ ہنسی پہ سب کو ہنسانا
کبھی بیٹھے بیٹھے ہی رو دینا
کوئی پیار سے دیکھے تو روٹھ جانا
وہ اپنے آپ میں سمٹے رہنا
چپ چاپ کہیں پہ بیٹھے رہنا
وہ چہرے دیکھ کے قیاس لگانا
وہ انداز دیکھ کے نام دینا
چاہت کے مفہوم سے نا آشنا
محبت کے ذکر پہ بگڑ جانا
پھر زندگی نے رخ بدلا
بس ایک شخص ہی محور بنا
ہر سوچ میں شامل ہو گیا
پھر دن بھر اسے سوچتے رہنا
دن بھر اس سے باتیں کرنا
اسے ہنسا کے خود بھی ہنسنا
اس کے دکھوں پہ رو پڑنا
وہ وعدے ساتھ جینے کے
بچھڑ کے مرنے کی دعائیں کرنا
وہ پل پل اس کی خبر رکھنا
اور
پل پل اپنی خبر دینا
یہ سب تو اب بھی ہے مگر
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
بس ایک قیاس ہے اب
کہ
کس حال میں تم رہتے ہو
اب کوئی شرارت کوئی قہقہہ
ہنسنا ہنسانا، رونا رلانا
سب کچھ چھوڑ چکے ہو تم
اور
ایک ہی یاد ستاتی ہے
جب بیقرار ہوتے ہو تم
تو دن بھر ٹہلتے رہتے ہو
راتوں کو بے چین ہو ہو کر
کروٹیں بدلتے رہتے ہو
ہر آہٹ پہ چونک جاتے ہو
ہر دستک پہ دھڑکن بڑھتی ہے
ہر چہرے کو غور سے تکتے ہو
پھر آنکھوں میں عکس بھرتے ہو
کبھی بے دھیانی میں فرش پر
اک نام لکھتے مٹاتے ہو
جب اپنا ماضی سوچتے ہو
خود
اپنے آپ پہ حیران ہوتے ہو
جب دل بے تاب ہوتا ہے
پھر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
تنہا کمرے میں بند ہو کر
پھر دیر تک کھوئے رہتے ہو
سب سے الگ تنہا تنہا
الجھے الجھے رہتے ہو
یا بے ربط سوچوں میں محو ہو کر
بالوں میں انگلی گھماتے ہوئے
چھت کو گھورتے رہتے ہو
کھلی آنکھوں سے خواب کوئی
اپنے آپ ہی بنتے ہو
ہر خواب میں بس ایک شخص
جو ہر سوچ میں تمہاری شامل ہے
پھر سوچتے سوچتے خوف سے کسی
خیالوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے
وہ خوف جو تمہاری زندگی کو
روگ میں بدل سکتا ہے
پھر دعائیں بہت تم مانگتے ہو
اپنی محبت کو پانے کی
مگر
یہ سب قیاسی باتیں ہیں
جو تراشی ہیں تمھارے ماضی سے میں نے
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






