جان سے بڑھ کےجو پیارا تو نہیں ہو سکتا
وہ کسی طور ہمارا تو نہیں ہو سکتا
میں کہوں کیسے کہ ساقط ہے یہ سجنا میرا
ہیار میں یار خسارہ تو نہیں ہو سکتا
کیا شبِ وصل جسے ملنے کا وعدہ میں نے
ہجر غم کرب کا مارا تو نہیں ہو سکتا
جس ادادے کے نہ ہوں لوگ کسی کے مسخر
ایسے اچھا یہ ادارہ تو نہیں ہو سکتا
میں نے تنہائی میں اکثر ہی طنابیں ہیں کھنچی
جو ہوا میرا تمہارا تو نہیں ہو سکتا
میں نے کرنی تھی محبت وہ تو کر ہی لی ہے
زیست میں پیار دوبارہ تو نہیں ہو سکتا
جس میں شہزاد طنازی ہو کروفر بھی بہت
وہ غریبوں کا سہارا تو نہیں ہو سکتا