افق پہ ابھروں، اور آفتاب ہو جاؤں
میں یوں کھلوں ، کہ گلاب ہو جاؤں
وہ جب بھی اداس ہو تو مجھہ کو ہی کھولے
میں شاعری کی اک کتاب ہو جاؤں
کشتی دل ہے نا خدا کے ہاتھوں میں
اب پار اتروں ، یا تہہ آب ہو جاؤں
وہ جب بھی سوئے مجھ کو ہی دیکھے
اسکی آنکھوں کا حسین خواب ہو جاؤں
عثمان وہ دریا ہے زمیں سی مثال میری ہے
وہ رخ بدلے تو میں بھی سیراب ہو جاؤں