جب بھی نگاھوں کو چار کرنا چاھا
ذرا سا چھو کے پیار کرنا چاھا
وہ ھواؤں کی طرح بکھر گیا
جب بھی اس کا حصار کرنا چاھا
بھلا چاھت اس کے دل میں گھر کیا کرتی
ھم نے دشت کو گلزار کرنا چاھا
سو گئے شب ھجر سب مہر و مہ
بس ھم نے انتظار کرنا چاھا
اسے یاد آئیں زماے بھر کی باتیں
ھم نے جب بھی قول و قرار کرنا چاھا
مدت ھوئی اس سے بچھڑے مگر
پھر بھی اسی سے پیار کرنا چاھا
اب یوں ھی اداس پھرنا حبیب
تم نے پتھروں سے پیار کرنا چاھا