جب تجھے خواب کے پردے میں چھپا دیکھتے ہیں
چاند تاروں سے در و باَم سجا دیکھتے ہیں
ہے یہ اعجا ز کہ اب موند کر آ نکھیں اپنی
ہم بدلتے ہوئے موسم کی اداَ دیکھتے ہیں
آس بندھ جاتی ہے سب کو ترِے لوٹ آنے کی
لوگ جب بھی مرِا دروازہ کھلا دیکھتے ہیں
مجھ میں جی بھر کے خرابی ہے مگر کیا کیجئے
دیکھنے والے مجھے اچھا بھلا دیکھتے ہیں
اے زمیں ماں ترِی عظمت کی نشانی کو سلام
آسماں کو ترے قدموں میں جھکا دیکھتے ہیں
کچھ تو فرمائیے انور جی بھلا آٹھوں پہر
آپ یوں غور سے آ ئینے میں کیا دیکھتے ہیں