جب رخ سے نقاب ان کے دھیرے سے سرکتی ہے
کیا روپ نکلتا ہے کیا شان جھلکتی ہے
وہ شعلہ بدن تو بس اک بار ہی گذرا تھا
اب تک مرے سینے میں اک آگ دہکتی ہے
اٹھنے کو وہ گھونگھٹ ہے ۔آئے گی قیامت کیا
کیوں جسم لرزتا ہے کیوں آنکھ پھڑکتی ہے
دولت کے اجالوں میں کیوں جام چھلکتے ہیں
غربت کے اندھیروں میں جب بھوک سسکتی ہے
وہ خواب سے اٹھتے ہیں لیتے ہوئے انگڑائی
یا باد سحر سے کوئی شاخ لچکتی ہے
غلطی ہو سیاست کی یا شیخ و برہمن کی
شعلے نہیں تھمتے ہیں جب آگ بھڑکتی ہے
تعریف حسینوں کی کرنا مری فطرت ہے
پر ان کو حسن میری یہ بات کھٹکتی ہے