جب لبوں نے ترا سوال لیا
پورے عالم کا سر وبال لیا
کیسی ظالم تھی وہ قتالہ بھی
جسم میں جاں تھی دِل نکال لیا
کھاتا تھا ٹھوکریں جو خلوت کی
اب اُسے یاد نے سنبھال لیا
یہ بھی کوئی کمال تھا اُس کا
چھین مجھ سے مرا کمال لیا
سو برس روئیں بھی تم کم نا ہو
ایسا کچھ سینے پہ ملال لیا
ہم تجھے سمجھے جاں نثار اپنا
تُو نے بھی ہم کو اپنی ڈھال لیا
خُوش نصیبی نہ لوٹ کر آئی
اپنے سر جب سے اُس کا بال لیا
ہُوں میں وہ بد نصبیب کے جس نے
خواب بیچے خراب حال لیا
کہتے ہیں لوح اور قلم جس کو
ہم نے قسمت میں وہ بھی لال لیا