جب ہم اُس سے جدا ہوئے ہوں گے
Poet: جنید عطاری By: جنید عطاری, چکوالجب ہم اُس سے جدا ہوئے ہوں گے
آسماں خوں میں تَر گئے ہوں گے
روح اُچھل کر سماں تک اُڑ جائے
ہم یُوں اس سینے سے لگے ہوں گے
جن کی یادوں میں کھوئے ہوش نہیں
پہلے شاید خدا رہے ہوں گے
جن کے طعنوں نے تُم کو چھلنی کیا
کس قدر لوگ وہ برے ہوں گے
جن پلوں نے جدا کیا ہم کو
مانگتے موت تھک گئے ہوں گے
اشک وہ بھی سلام کہتے ہیں
کبھی آنکھوں سے نا بہے ہوں گے
لب ہوں خاموش تو مرے رستے
چیختے اور پُکارتے ہوں گے
تیرے رُو سے نقاب اُٹھا دیکھ کہ
شہر کے شہر مر گئے ہوں گے
اُس کے جلوے کی تاب نہ لا کر
دیدے یک آن پھر پھٹے ہوں گے
میرے زخم انتظار میں تیرے
خود ہی مرہم ہوئے بھرے ہوں گے
گنتے گنتے تمہارے رستوں کو
فاصلے ہی تڑپ اُٹھے ہوں گے
سینے جِس کے وہ لگ گیا ہو گا
اُس کے سب ناز رو پڑے ہوں گے
کتنے لب دیکھ کر ہوس سے تجھے
رالیں ٹپکاتے مر رہے ہوں گے
صرف تجھ کو گزارنے کے لیے
بگڑے لمحے سُدھر چلے ہوں گے
جاں تری داستاں کو لکھ لکھ کر
لفظ بیزار ہو گئے ہوں گے
کہتے ہیں نبضِ زندگی جن کو
وہ ہمیں بُھول بھی چُکے ہوں گے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






