جب سے تیری نظر میں رہتی ہوں
چاندنی کے نگر میں رہتی ہوں
خواہشوں کے اُڑن کھٹولے پر
ایک انجاں سفر میں رہتی ہوں
میں جسے اپنا کہہ نہیں سکتی
ایک ایسے ہی گھر میں رہتی ہوں
ہوں کبھی خوش تو میں کبھی غمگیں
دِل کے زیر و زبر میں رہتی ہوں
جِس کو میں بھی نہ چھوُ سکی اب تک
اُس دِلِ معتبر میں رہتی ہوں
مجھ کو اوروں کی کیا خبر ہو گی
خود سے بھی بے خبر میں رہتی ہوں
تم نے محسوس تو کیا ہوگا
میں تمہارے اثر میں رہتی ہوں
تارے گننے کے شوق میں عذرا
جاگتی رات بھر میں رہتی ہوں