جس طرح درختوں کا سائباں نہیں جاتا
جذبہ محبت ِ بھی رائیگاں نہیں جاتا
ہر قدم قیامت کے درد سہنے پڑتے ہیں
طالبِ محبت کا امتحاں نہیں جاتا
دن گزر تو جاتے ہیں غم کی دھوپ چھاؤں کے
سر سے بد نصیبی کا آسماں نہیں جاتا
زخم بھر تو جائیں گے وقت کے گزرنے پر
عشق کا جو گھاؤ ہے جانِ جاں نہیں جاتا
آسماں کی پلکیں بھی اس سے بھیگ جاتی ہیں
دادؔ رات دن رونا رائیگاں نہیں جاتا