جلا دیں میں نے تصویریں خط سارے جلا ڈالے
لکھے تھے جو دیواروں پہ نام سارے مٹا ڈالے
نادانی کی چاہت نے کوئی تو رنگ دیکھا نا تھا
پرانی اُس نے چاہت کو نئے کپڑے پہنا ڈالے
اسے چاہنا جرم میرا، ہجر اسکا سزا میری
وفا کی اُس نے راہوں پہ کیا کانٹے بچھا ڈالے
ملا ہم سے تو وہ ایسے کوئی انجان یو جیسے
پرانی اس نے قبروں پہ نئے کتبے سجا ڈالے
کیوں چپ تھا مدت سے درد اتنا کیوں سہتا تھا
ایک پل میں ہی ساجد اب غم سارے سنا ڈالے