تُو میری سوچ کی مانند تصور میں جھلکتا ہے
خیالوں کے اُفق پہ چاند کا پیکر چمکتا ہے
میرا ہی نام جب آتا ہے تیری داستانوں میں ہم
عجب انداز سے پہلو میں میرا دل دھڑکتا ہے
ہمارے صبر کو وہ آزما کے سوچتا ہو گا
کوئی لبریز پیمانہ نہ جانے کب چھلکتا ہے
ہمیں قاتل ہمیں مجرم ہمیں ٹھہرے ستم گر بھی
مگر حیران ہیں ہم خود کو وہ معصوم کہتا ہے
وفا کی راہ میں مٹ کر وہ کہتا ہے سر محفل
جلے جب شمع محفل میں تو پروانہ بھی جلتا ہے