جنگل میں وہ بے وقت سے گھبرائے ہوئے ہیں
ہیں اپنے نشیمن میں سبھی لائے ہوئے ہیں
اک چہرہ جو اب میری بھی آنکھوں میں مکیں ہے
رہتا تھا تصور میں ہی بنوائے ہوئے ہیں
وہ جھوٹ سجائے ہوئے ہونٹوں پہ ہے سچا
میں موردِ الزام ہوں جو کھائے ہوئے ہیں
قائم ہے جو برسوں سے مرے دل کی زمیں پر
یہ امن کی بستی تھی جو یہ آئے ہوئے ہیں
اک لمحہ مسرت میں بھی جذبوں کا فسوں تھا
اس دشتِ طلب میں مری پھیلائے ہوئے ہیں
وہ میری عبادت کو بھی ٹھکرائے گا اک دن
معلوم تھا یہ سجدوں کو گنوائے ہوئے ہیں
وشمہ میں محبت کے سپاہی پہ ہوں قرباں
جو ہار گیا جیت سے شرمائے ہوئے ہیں