جنگل میں وہ بے وقت کی برسات سے پہلے
ہیں اپنے نشیمن میں سبھی رات سے پہلے
اک چہرہ جو اب میری بھی آنکھوں میں مکیں ہے
رہتا تھا تصور میں ملاقات سے پہلے
وہ جھوٹ سجائے ہوئے ہونٹوں پہ ہے سچا
میں موردِ الزام ہوں ہر بات سے پہلے
قائم ہے جو برسوں سے مرے دل کی زمیں پر
یہ امن کی بستی تھی فسادات سے پہلے
اک لمحہ مسرت میں بھی جذبوں کا فسوں تھا
اس دشتِ طلب میں تو مری ذات سے پہلے
وہ میری عبادت کو بھی ٹھکرائے گا اک دن
معلوم تھا یہ سجدوں کی اوقات سے پہلے
وشمہ میں محبت کے سپاہی پہ ہوں قرباں
جو ہار گیا جیت مری مات سے پہلے