جن کے ساتھ تھے کبھی اپنے راستے
وہ تو چل پڑے سبھی اپنے راستے
میری نظر رکی تو نظر کی حد تک
اور نظاروں میں ڈھل گئے اپنے راستے
وہ سوچ بیٹھے کہ ہم نے جفا کی
یار وفائی کے بھی ہیں اپنے راستے
میں نے کی بھی تو بس حشر بندگی
بَن باسی کو راس آگئے اپنے راستے
خیالوں کے سمندر میں پاغوش ہی لگا کر
اُس مسافت نے پکڑ لیئے اپنے راستے
کچھ دیر تو ہم ساتھ چلے سنتوشؔ
پھر منزلیں ہی مُڑ گئی اپنے راستے