جو آپ کی تھی نظرِ عنائیت بھی نہیں ہے
اب دل میں وہ پہلی سی محبت بھی نہیں ہے
کچھ ان کے بھی بدلے سے نظر آتے ہیں تیور
پہلی سی میسر ہمیں فرصت بھی نہیں ہے
اُس شخص کو منصف کے نبھانے ہیں فرائض
وہ شخص جو انصاف کی مورت بھی نہیں ہے
حاصل ہیں انھیں اور بہت چاہنے والے
اب اُن کو مری خاص ضرورت بھی نہیں ہے
اب دور ہوئے جاتے ہیں مذہب سے بہت ہم
پہلا سا وہ اب شوقِ عبادت بھی نہیں ہے
ذہنوں پہ ہیں چھائے ہوئے ابہام کے سائے
اور سامنے کچھ اس کی وضاحت بھی نہیں ہے
ہر آئینہ بے عکس ہوا جاتا ہے اب کے
اور اس میں کہیں کوئی شباہت بھی نہیں ہے
کیا جانے خفا ہم سے وہ کیوں رہتے ہیں اکثر
ہر چند کوئی ان سے عداوت بھی نہیں ہے
گم گشتہ تعلق کا ہی کچھ پاس تو رکھ لیں
اب لوگوں میں اتنی سی مروت بھی نہیں ہے
دن رات ترے عشق میں ہم مٹتے رہے ہیں
اور لب پہ کوئی حرفِ شکائت بھی نہیں ہے