جو بھول گئے تھے برسوں پہلے،آج یاد آیا تو بہت روئے ہیں
ہنستے تھے اوروں کےغم پہ پہلے،خودغم کھایا تو بہت روئے ہیں
کیسے کاٹتا ہوں تنہاہی کی رات، کسےبتاوں اپنےدل کی بات
جب بھی چاند میں اُن کا چہرا ، نظر آیا تو بہت روئے ہیں
سوچا تھا لوگوں سے ملیں گے، کچھ کہیں گے کچھ سنیں گے
جب سب نے قصہِ عشق سنایا، تو بہت روئے ہیں
جب بھی گئے دل بہلانے کو،تیری یاد سے پیچھا چھڑانے کو
جب گلوں میں ،کلیوں میں تیرا، لمس پایا تو بہت روئے ہیں
کیے تھے سجدے ہزار ہم نے، کی تھیں منتیں ہزار ان کی
جب در پہ اپنے خالی ہاتھ ، قاصد آیا تو بہت روئے ہیں
اُنہیں بھی بہت دُکھ تھا، شاید کسی کے بچھڑ جانے کا
شعر اٰن کو جوہؔر نے جب کوئ ، سنایا تو بہت روئے ہیں