ہوئے ہوئے نہ ہوئے، کونسی محبت کے
جو کام ہر کسی حالت میں ہوامامت کے
جچے ہیں اُن کی نگہ میں تو آئنے تُو بھی
اُٹھا یہ عکس کہ ہم صاحب ِ کرامت کے
یقین کیوں نہیں قربت کا آپ کے ہوتا
کہ آپ آپ نہیں ہو، مری محبت کے
نہ ابتدا میں تھی مُشکل، نہ انتہا میں ہوئی
جو درمیان رہے مرحلے سیاست کے
یہ کیا ہوا ہے کہ جزبات تھم گئے اک دم
ذرا سی دیر جو رہتا ہے وہ سماعت کے
جواب اُن کو پتہ تھے ، سو چُپ رہے ہم بھی
اُنہیں سوال ہی کرنے تھے، پھر ندامت کے
انا کے خول سے وشمہ نکل بھی آؤ کہیں
ہمیں فراق نے مارا ہماری فطرت کے