جو میری آنکھ سے اوجھل ہے ڈھونڈنے تک ہے
وہ اک پہیلی کی صورت ہے بوجھنے تک ہے
مری نظر نے اسے حسن و تازگی بخشی
حسین ہے وہ مگر میرے دیکھنے تک ہے
غریب لوگ بھلا کیسے اب کے پیار کریں
کہ اب تو پیار بھی سب کچھ بٹورنے تک ہے
یہ دوستی کا ڈرامہ چلے گا کب تک یوں
جو ایک دوجے کی پگڑی اچھالنے تک ہے
تمھارے لمس کی مجھ کو نہیں ذرا خواہش
مری پیاس تو بس تم کو دیکھنے تک ہے
وہ اپنے آپ پہ باقرؔ کبھی تو روۓ گا
غرور اس کا گریباں میں جھانکنے تک ہے