جو میری یاد کو سینے لگا کے روتا ہے
مرا خیال ہے مجھ کو گنوا کے روتا ہے
اسے تو زعم تھا میں جان دے نہ پاؤں گا
بتاۓ کیوں وہ مجھے آزما کے روتا ہے
بھلا کے لوگ تو اپنوں کو خوش سے رہتے ہیں
یہ میرا دل ہے کہ اس کو بھلا کے روتا ہے
تمام دن جو ہنساتا ہے شہر والوں کو
وہ سارے شہر کو آخر سلا کے روتا ہے
میں کیسے مان لوں اس نے بھلا دیا مجھ کو
جو رات بھر مرے خوابوں میں آ کے روتا ہے
ہے شاید اپنی جفاؤں کا اب اسے احساس
وہ مجھ کو دیکھے تو چہرہ چھپا کے روتا ہے
جو بات بات پہ باقرؔ ہے روٹھتا مجھ سے
کمال ہے وہ مجھے پھر منا کے روتا ہے