جو کبھی چمپا ، چنبیلی ، رات کی رانی لگی
پاس سے جب آج وہ گزری تو انجانی لگی
ہو کے کچھ محتاط اُس نے صرف اتنا ہی کہا
شکل صورت آ پکی کچھ جانی پہچانی لگی
ہم سمجھتے تھے کہ بس ہم پر ہے سب دیوانہ پن
بات جب نکلی تو وہ لڑ کی بھی دیوانی لگی
جاتے جاتے وہ ترا مڑ مڑ کے پیچھے دیکھنا
دید کے قابل ہمیں خود اپنی حیرانی لگی
ہم نے تو عرصہ ہوا صحرا نوردی چھوڑ دی
دشت سے اچھی ہمیں اس دل کی ویرانی لگی