جھمکے لا دو
Poet: حیاء غزل By: Haya Ghazal, Karachiحسن سجتا ہی ہے سنگھار سے جھمکے لادو
 مانگا ہے آج کچھ دلدار سے جھمکے لادو
 
 سونے چاندی کے ہوں نہ ہوں بھلے پیتل کے
 پاس کے ہی نئے بازار سے جھمکے لا دو
 
 چھونا ہر بار ہی کانوںکو بڑے اندازکےساتھ
 کہنا پھر اسکا وہی قرار سے جھمکے لا دو
 
 موہ لیا کرتا ہے بے ساختہ میرا دل یو نہی
 باز آنا نہیں کبھی تکرار سے جھمکے لادو
 
 دیکھو دیکھیں گےنہیں جبتک نظربھر کے
 بچنا چاہتے ہو تو انکار سے جھمکے لادو
 
 سنجو کے نازک سی تیری یہ نشانی دل سے
 پاس رکھیں گے بڑے پیار سے جھمکے لادو
 
 آنسو بہنے کو ہیں چھوڑ دو اب ضد اپنی
 مار ڈالیں گے اس ہتھیار سے جھمکے لادو
 
 جانے دیں گےنہیں کہیں بھی وعدہ کے بناء
 شرط ہے ایک ہی فرار سے جھمکے لادو
More Love / Romantic Poetry






