کچھ عمر تو گذارتے رب کی رضا کے ساتھ
جیتے رہے ہو تم فقط اپنی انا کے ساتھ
شاید بہت قریب سے گذرا ہے وہ مرے
آتی ہے مجھ کو اس کی مہک بھی ہوا کے ساتھ
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے بڑا مان تھا ہمیں
چلتے رہے کہاں تلک اس بے وفا کے ساتھ
لوگوں سے مل رہی ہے وہ بے خوف کس طرح
شرم و حیا بھی گر گئی اس کی ردا کے ساتھ
کچھ فاصلہ تو پہلے ہی تھا اپنے درمیاں
کچھ کر لیا ہے ہم نے بھی اس کی رضا کے ساتھ
کہتے ہیں کس کو عشق وہ بتلائے گا تمہیں
بیٹھو ذرا کبھی کسی تم غم زدہ کے ساتھ
جینا تجھے بھی ہو گا اب اپنی جفا کے ساتھ
تجھ سے وفا نہ ہو گی کسی باوفا کے ساتھ
وہ اور تھے جو تیری اداؤں پہ مر گئے
ہم جی رہے ہیں آج بھی اپنی ادا کے ساتھ
سب کچھ تباہ کر دیا ظالم نے پل میں یوں
رہتا ہے آج بھی وہ بس اپنی انا کے ساتھ
مجھ کو نہیں ہے خوف کسی بھی اڑان سے
اڑتا رہا ہوں میں بھی مخالف ہوا کے ساتھ
خاموش ہوں ابھی یہاں بس جان لیجئے
بیٹھے ہیں وہ بھی اپنے کسی ناخدا کے ساتھ
سب کچھ بھلا رہے ہو مگر اتنا سوچ لو
محشر میں پھر ملوں گا ساری سزا کے ساتھ
پوچھے گا جب خدا بتا یہ کیا ہوا تجھے
تم چپ رہو کہو گے بڑی التجا کے ساتھ
کس حوصلے سے کہہ دیا ارشیؔ نے دیکھ لو
جھولیں گے ہم صلیب پہ اپنی ادا کے ساتھ