جھوٹ انسان کو نظروں سے گرا دیتا ہے
جھوٹ ہر رشتے کی بنیاد ہلا دیتا ہے
کون ہوتا ہے یہاں غم میں پریشاں تیرے
جو بھی آتا ہے یونہی آنسو بہا دیتا ہے
جب بھی پوچھا کہ بتا درد کی حد کیا ہے یہاں
خاک ہاتھوں میں وہ لیتا ہے اڑا دیتا ہے
اب تو عادی سا ہوا ہوں میں غموں کو سہتے
صبر لگ کے گلے مجھ کو ہی رلا دیتا ہے
دستِ شفقت نہ رہا باپ کا سر پر میرے
کوئی تو ہے جو مجھے اب بھی دعا دیتا ہے
جب بھی محسوس ہوئی کوئی کمی بھی مجھ کو
میرا ماضی مجھے آئینہ دکھا دیتا ہے
روز کہتا ہوں کہ بن جاؤں زمانے جیسا
روز اندر سے کوئی شور مچا دیتا ہے
میں جنہیں روز جگاتا ہوں قلم سے اپنے
دے کے تلوار انہیں کون سلا دیتا ہے
کون ہوتا ہے برے وقت میں اپنا ارشیؔ
پیڑ سوکھے ہوئے پتوں کو گرا دیتا ہے