جینے کا آدمی کے طریقہ بدل گیا
دنیا سمجھ رہی ہے زمانہ بدل گیا
پھولوں کا رنگ باغ کا نقشہ بدل گیا
ماحول گردوپیش کا کتنا بدل گیا
صورت بدل گئی مرا چہرہ بدل گیا
عمرِ رواں کے ساتھ میں کتنا بدل گیا
فاقہ کشی کا دور تھا تو خاکسار تھا
دَولت ہوئی نصیب تو لہجہ بدل گیا
وہ شخص اجنبی تھا ابھی کل کی بات ہے
آنکھیں ہوئیں جو چار تو رشتہ بدل گیا