چشم بدور کہیئے کہ چاند کا ٹکڑا
بہر حال حسن تم لاجواب رکھتے ہو
اور ھی مدھوش ہو جاتا ھے عالم
ھاتھ میں جب تم کھلتا گلاب رکھتے ہو
ھم تو سمجھے تھے یار تمہیں اپنا
اور تم ہو کہ حساب رکھتے ہو
اسکی چاھت میں مٹا دوگے خود کو
یہ کیسا جنون دل خانخراب رکھتے ہو
اک عذاب حشر کا پہلے سے ھے کھٹکا
اور تم عشق کر نیت عذاب رکھتے ہو
مجال کس کی کہ تیری حضور ڈالے غوغا
کہ تم حسن و سلوک لاجواب رکھتے ہو
اسد جس کی تعبیر کبھی ممکن نہیں
تم وہ خلل دماّغ صورت خواب رکھتے ہو