حسن کی تصدیق نہیں کرتا ہے
اب آئینہ تعریف نہیں کرتا ہے
دلکشی رہی نہ رعنائی رہی
حسن رہا نہ دِلربائی رہی
کتنا ہی سج سنور لیں
کیسا ہی سنگھار کر لیں
حسن کی تصدیق نہیں کرتا ہے
اب آئینہ تعریف نہیں کرتا ہے
عام سے انسان تھے
حسین تھے نہ خوش گمان تھے
ہاں مگر انداز تھے
اور کچھ ادائیں تھی
عہدِ شباب کی کشش تھی
جو کسی نظر کو بھا گئی
جو کِسی کا دِل لبھا گئی تھی
اسی کشش کو آئینے میں دیکھ کر
اپنی نظر شرما گئی تھی
اور کچھ اترا گئی تھی
لیکن وہ لمحے ٹل گئے
سارے انداز بدل گئے
جوانی ڈھل گئی
وقت بدل گیا
وقت کے بدل جانے سے
کِسی نظر کا اثر بھی بدل گیا
نظرکا معیار بدلنے سے
آئینے کا نظریہ بھی بدل گیا
حسن کی تصدیق نہیں کرتا ہے
اب آئینہ تعریف نہیں کرتا ہے