حسن گر با کمال ہے جاناں
عشق بھی لازوال ہے جاناں
کوئی کیوں آئے سامنے تیرے
کس میں اتنی مجال ہے جاناں
زندگی کتنی خوبصورت ہے
تیرا حسنِ خیال ہے جاناں
نہ میں زندوں میں ہوں نہ مردوں میں
بس یہ تیرا کمال ہے جاناں
ترے قدموں میں جان دے دے گا
وہ جو غم سے نڈھال ہے جاناں
اُس سے پوچھو وہ چاہتا کیا ہے
جو سراپا سوال ہے جاناں
میں ترے خواب بُنتا رہتا ہوں
کب سے میرا یہ حال ہے جاناں
تُو بھی رسوا ہوا ہے میرے ساتھ
مجھ کو اس کا ملال ہے جاناں
ساری دنیا میں ایک تیرے سوا
کون یاں بے مثال ہے جاناں
جس سے اب تک نکل نہیں پایا
ترے یادوں کا جال ہے جاناں
جب سے پھیری ہے تُو نے چشمِ کرم
زندگی اِک وبال ہے جاناں
جی رہا ہوں تری خوشی کے لئے
اور جینا محال ہے جاناں
وہ جو نظریں جھکائے بیٹھا ہے
تُجھ کو اُس کا خیال ہے جاناں
وہ جو بیٹھا ہے تیرے قدموں میں
کیوں خوشی سے نہال ہے جاناں
جو بھی کہنا ہے صاف کہہ دوں گا
میرا تو یہ خیال ہے جاناں
پوچھتے ہیں وہ حال ِ دل مجھ سے
وہی بے ڈھنگی چال ہے جاناں
مار تو عشق میں پڑی ہے مجھے
سرخ کیوں تیرا گال ہے جاناں
اہلِ دانش یہ کہہ رہے ہیں مجھے
یہ تو اِک نیک فال ہے جاناں