حسین یادیں جلا گیا ہے
اکیلا ہم کو بٹھا گیا ہے
جھکی نہ تھی جو کسی کے آگے
ہماری گردن جھکا گیا ہے
وہ ساتھ گزرے ہوے ہمارے
حسین لمحے بھلا گیا ہے
رفاقتیں تھیں حماقتیں تھیں
وہ سارے ناطے مٹا گیا ہے
گلی میں ہر سو ہیں لاشے بکھرے
وہ رخ سے پردہ اٹھا گیا ہے
ادھر ہی بیٹھا ہوں سائل اب تک
جدھر وہ ہم کو بٹھا گیا ہے