حسیں تھا چمن کو بہاروں نے لوٹا
ہمیں یار اپنے ہی پیاروں نے لوٹا
نزاکت ادا وہ کروفر نہیں ہے
حسیں حسن کو اب نظاروں نے لوٹا
امیروں کی مرضی چلی اب نہیں یے
امیروں کو غربت کے ماروں نے لوٹا
خسارے پہ ہوتے خسارے رہے ہیں
حکومت کو ان کے اداروں نے لوٹا
چلی ہی نہیں حکومت تو ان کی
انہیں اپنے امید واروں نے لوٹا
بہا کے گیا لے ہے پانی کا ریلا
زمیں کو ندی کے کناروں نے لوٹا
تجارت میں نقصان الٹا ہوا ہے
نئے روز آئے خساروں نے لوٹا